انسان کی مادّہ پرستی اور
ظاہر بینی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ حقائق کو فراموش کربیٹھا،
ہر انسان زیادہ سے زیادہ وسائلِ عیش وعشرت کے حصول میں
سرگرداں اور پریشان نظر آتا ہے، دنیوی ترقی کے لیے
دور دراز کے سفر طے کیے جاتے ہیں، اس دنیا کی ہمہ ہمی،
شورو غل اور مسائل سے حقیقت پس منظر میں چلی گئی، انسان
اپنے مقصدِ حیات کو یکسر بھول بیٹھا اور وسائل کو مقاصد کا درجہ
دے کر اس کے پیچھے زندگی کھپا رہا ہے، آج کسی فردِ بشر کا ذہن
اس بات کی طرف نہیں جاتا کہ آخر دنیا میں اس کا وجود کیوں
ہوا، خالق نے اسے کیوں پیدا کیا؟ کیااس کی تخلیق
کا صرف یہی مقصدہے کہ وہ دنیا میں کمائے کھائے، پُرعیش
زندگی گزارے، بیوی بچوں کے ساتھ موج ومستی کرے، شاندار
بنگلوں میں رہے، نئی نئی ماڈل کی گاڑیوں میں
گھومے، بینکوں میں اس کا بھاری بیلنس(Balance)
ہو، روز نئی نئی پارٹیوں اور محفلوں میں شرکت کرے اور خوب
خوب مزے اڑائے۔
یومِ
حساب سے غفلت
آج اتنی بے فکری سے زندگی بسر
کی جارہی ہے، جیسے اس کا یقین ہو کہ مرنا ہی
نہیں ہے، قیامت تک عالمِ برزخ میں اپنے اچھے بُرے اعمال کے
مطابق رہنا نہیں ہے، یا قیامت نہیں آئے گی، حساب
وکتاب کے مراحل نہیں آئیں گے؛جبکہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”قیامت
کے دن جب بارگاہِ خداوندی میں حساب کے لیے پیشی ہوگی،
توانسان کے پاؤں اس وقت تک اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے؛ جب تک اس سے
پانچ باتیں نہ پوچھ لی جائیں: (۱) زندگی کے بارے میں کہ کن کاموں میں گزاری؟
(۲)
جوانی کے بارے میں
کہ کن مشاغل میں فنا کی؟(۳) مال
ودولت کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا؟ (۴)اور کہاں خرچ کیا؟ (۵) اور جو کچھ جانتا تھا اس پر کتنا عمل کیا؟“۔(سنن
الدارمی، باب من کرہ الشہرة والمعرفة،رقم الحدیث:۵۳۹)
دولت
کی ہوس
آخرت میں صرف دو ہی ٹھکانے
ہوں گے ”جنت یا جہنم“، پہلی منزل اللہ کے صالح اور متقی بندوں
کے لیے ہے اور دوسری نافرمانوں، گنہ گاروں اور غفلت میں زندگی
میں بسر کرنے والے بد نصیب لوگوں کے لیے ہے،اس کے باوجود ہمیں
اس حوالے سے کوئی فکر نہیں ،اگر فکر ہے، تو صرف دولت اکٹھی کرنے
کی اور شہرت حاصل کرنے کی اور اپنی دولت وثروت کے ذریعہ
معاشرہ میں مصنوعی عزت حاصل کرنے کی؛ جب کہ اس حقیقت سے
انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مال ودولت کی فراوانی اکثر وبیشتر
انسان کو بغاوت وسرکشی، بہت سی برائیوں نیز گناہوں پر
ابھارتی ہے اور اصل مقصدِ زندگی سے غافل اور لا پرواہ کردیتی
ہے، حضو رپاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے بارے میں
اس کا بہت زیادہ ڈر اور خطرہ تھا؛ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس
خوشنما فتنہ سے آگاہ فرمایا؛ تاکہ امت اس کے برے اثرات اور خطرات سے بچنے کی
کوشش کرے اور مال ودولت کی ہوس میں اصل مقصد زندگی کو فراموش نہ
کربیٹھے، حضرت عمرو بن عوف
بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ
گرامی ہے: ”خدائے پاک کی قسم مجھے تمہارے بارے میں فقر وناداری
کا اندیشہ نہیں ہے، ہاں مجھے تمہارے بارے میں یہ ڈر ضرور
ہے کہ تم پر دنیا وسیع کردی جائے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر
وسیع کی گئی تھی پھر تم اس کو بہت زیادہ چاہنے لگو،
جس طرح انھوں نے اس کو بہت زیادہ چاہا تھا پھر وہ تم کو برباد کرے، جس طرح
ان کو برباد کردیا۔(صحیح البخاری، باب الجزیة
والموادعة... رقم الحدیث: ۲۹۸۸)
اسلامی
تعلیم وتربیت سے دوری
ہمیں اسلامی طرزِ معاشرت
اختیار کرنے میں عار محسوس ہوتی ہے، اپنے بچوں کو دین کا
داعی اوراسلامی سرحدوں کا سپاہی بنانے میں نہ جانے کونسا
خوف ستاتا ہے، آخر وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہم علمِ دین
سیکھنے سے گریز کرتے ہیں، اپنے بچوں اور بچیوں میں
دینی تعلیم کو فروغ نہیں دیتے؛ کیوں ہم صرف
عصری تعلیم کے اعلیٰ کورسیز اور ممتاز ڈگریوں
کے پیچھے دوڑرہے ہیں؟ جب کہ ان کالجز اوریونیورسٹیز
میں صرف تعلیم ہے ، تربیت اور اخلاقیات کا کوئی
پہلو ہی نہیں؛بلکہ معاف کریں ، ان میں سے چند فحاشی
کی تعلیم وتربیت کرتے ہیں، جہاں آرٹس کے نام پر نیم
برہنہ لڑکیاں اور لڑکے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اسٹیج پر رقص کرتے
ہیں اور ایسے ایسے پروگرام پیش کرتے ہیں کہ مارے حیا
کے جانور کی بھی گردن جھک جائے، تعلیمی ٹورز کے دوران جب
جوان لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی ساتھ چوبیس(۲۴) گھنٹے گزارتے ہیں، تو کیا کچھ برائیاں اور
غلط کاریاں وجود میں نہ آتی ہیں؟!!
چمن میں تلخ نوائی مری گوارہ کر * کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ
تریاقی
اسلام
میں مضمر ہے مسلم کی فلاح
انسانیت کی فلاح صرف اسلامی
تعلیم وتربیت میں مضمر ہے، اگر اسلامی تعلیمات کی
مکمل اتباع کی جائے، تو دنیا میں بھی کامیابی
ہے اور آخرت میں بھی کامرانی ہوگی ، اللہ پاک کا ا رشاد
ہے:
”مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی وَھُوَ
مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاةً طَیِّبَةً وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ
أَجْرَھُم بِأَحْسَنِ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ“ (سورة النحل، آیت:۹۷)
ترجمہ: جو شخص کوئی
نیک کام کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو، بشرطیکہ صاحبِ ایمان
ہو، تو ہم اس شخص کو (دنیا میں تو) بالطف زندگی دیں گے
اور (آخرت میں) ان کے اچھے کاموں کے عوض میں، ان کا اجر دیں گے۔
اللہ
تعالیٰ ہی پالن ہار ہے
اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے
اور تفسیری کتابوں کے مطابق ”رب“ اس ذات کو کہتے ہیں، جو کسی
چیز کو وجود بخشے اور تدریجی طور پر اسے کمال تک پہونچائے اور
وجودو کمال کے مناسب لوازمات اس کے لیے مہیا کرے؛ اسی لیے
ہمارا عقیدہ کہ جو اللہ ہمارا خالق ہے، وہی رازق بھی ہے؛ چناں
چہ اللہ پاک کا ارشاد گرامی ہے:
”وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِیْ الأَرْضِ إِلاَّ عَلَی
اللہِ رِزْقُھَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَمُسْتَوْدَعَھَا کُلٌّ فِیْ
کِتَابٍ مُّبِیْن“ (سورة الھود، آیت:۶)
ترجمہ: روئے زمین
پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی روزی
اللہ کے ذمہ نہ ہواور اللہ ان کے زیادہ رہنے کی جگہ اور چند روزہ رہنے
کی جگہ کو جانتا ہے اورہر چیز کتاب میں لکھی ہوئی
ہے۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات
کی تقدیریں آسمان اور زمین کی پیدائش سے بھی
پچاس ہزار سال پہلے لکھ دی تھی“ (صحیح مسلم، باب حجاج آدم وموسیٰ
علیہما السلام، رقم الحدیث: ۲۶۵۳) اور حضور نے ایک طویل حدیث میں فرمایا
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنی پیدائش سے پہلے مختلف ادوا ر
سے گزرتا ہے، جب اس کے اعضاء کی تکمیل ہوجاتی تو اللہ تعالیٰ
ایک فرشتہ کو حکم فرماتے ہیں جو اس کے مطابق چار چیزیں
لکھ دیتا ہے:
( ۱) اس کا عمل جو کچھ وہ کرے گا(۲) اس کی عمر کے سال ،مہینے،دن اور منٹ حتی کہ
سانس تک لکھ لیے جاتے ہیں(۳) اس کو کہاں مرنا ہے اور کہاں دفن ہونا ہے (۴) اس کا رزق کتنا ہے اور کس طریقہ سے پہنچنا ہے“۔(صحیح مسلم، باب کیفیة
الخلق الآدميّ، رقم الحدیث: ۲۶۴۳)
حلال
وحرام کا امتیاز اٹھ گیا
جب یہ بات طے ہوچکی کہ کتنا
رزق ملے گا، تو اب اس کے لیے بے جا دوڑ دھوپ ،اتنی کہ فرائض وواجبات میں
خلل ہو، حلال وحرام کی حدود باقی نہ رہیں، نہ احکامِ خداوندی
کا پاس ولحاظ رہے اور نہ حقوقِ عبادہی ادا ہوں، یہ کونسی عقل کی
بات ہے، ایسے لوگوں کے حق میں رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ
وسلم نے ان سخت الفاظ میں بد دعاء فرمائی ہے ”ان پر خدا کی لعنت
ہو اور اللہ جل شانہ کی رحمت سے وہ دور ہوں“ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لُعِنَ عَبدُ الدِینارِ
ولُعِنَ عبدُ الدرھمِ“
(صحیح ترمذي، باب ماجاء في أخذ المال، رقم الحدیث: ۲۳۷۴) ترجمہ : دنیا کا پجاری خدا کی رحمت سے دور کیا
جائے اور درہم کا پجاری خدا کی رحمت سے دور کیا جائے، اس کے
باوجود آج تحصیلِ دولت کی راہ میں حلال وحرام کا کوئی فرق
باقی نہ رہا، دورِ حاضر کا انسان اس تحقیق کی ضرورت ہی
محسوس نہیں کرتا کہ جو مال وہ کما رہا ہے ،جو روزی وہ کھارہا ہے اور
جس پیسے سے وہ اپنے بچوں کی پرورش کررہا ہے، وہ حلال ہے یا
حرام؟ اس طرح کے سنگین حالات کی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ایک حدیث میں پیشین گوئی فرمائی
ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”یَأتِيْ عَلی
الناسِ زمانٌ لا یُبالِي المَرْءُ ما أخَذَ مِنْہُ أمِنَ الحَلالِ أمْ مِنَ
الحرامِ“ (صحیح البخاري، باب من لم
یبال من حیث کسب المال،رقم الحدیث:۱۹۵۴)ترجمہ: لوگوں پر ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ آدمی کو
اس کی پرواہ نہیں ہوگی کہ اس کی آمدنی کیسی
ہے:حلال ہے یا حرام؟
حرام مال ہی کا ایک اہم
شعبہ سود ہے، آج سود کی وبا اتنی عام ہو چکی ہے کہ شاید
وباید ہی کوئی اس کے برے اثر سے محفوظ رہ سکا ہو، حضرت جابر بیان کرتے ہیں: ”لَعَنَ رسولُ اللہِ صلی
اللہ علیہ وسلم آکِلَ الرباءِ ومُوکِلَہ، وکاتِبَہ وشاھِدَیْہِ وقال: ھُمْ
سَواءٌ“(صیح مسلم، باب لعنِ آکل الربا وموکلہ، رقم الحدیث: ۱۵۹۸) ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے
والے پر سود کھلانے والے پر اور سودی معاملہ لکھنے والے پر اور سودی
معاملہ کے دو گواہوں پر لعنت فرمائی اور آپ نے یہ بھی فرمایا:
وہ سب گناہ میں برابر ہیں،آج کے لادینی نظامِ معیشت
میں ایسی صورتِ حال لوگوں کو در پیش ہے کہ سود کی
لعنت سے بچنا انتہائی مشکل ہوچکا ہے، ایسے بدترین حالات میں
ایک صاحبِ ایمان کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے دامن کو اس گندے ماحول
سے بچاکر چلے، اسی کا نام تقوی ہے، جس پر بے پناہ بشارتِ خداوندی
ہیں۔
محاسبہٴ
نفس
مسلمانوں کو اپنے شب وروز کے معمولات،
اپنی تجارت وکاروبار، اپنے اہل وعیال کا طرزِ زندگی اور ان کی
تعلیم وتربیت، اپنے گھر کے احوال ، اپنی گفتار وکردار، عادت
واطوار، رہن سہن، لین دین، خوشی و غم اور تمام دینی
ودنیوی امور میں غور وفکر کرنا چاہیے کہ اسلام کے کتنے
مطابق اور کتنے مخالف ہیں، اس سے کتنے قریب اور کتنے دور ہیں،
موت ،قبر ،قیامت، حشرو نشر، حساب وکتاب، جزا وسزااور جنت ودوزخ کا استحضار
کرنا چاہیے اور اللہ پاک کا یہ ارشاد ہر وقت پیشِ نظر رہنا چاہیے،”وَاتَّقُواْ یَوْماً
تُرْجَعُونَ فِیْہِ إِلَی اللہِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ
مَّا کَسَبَتْ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُون“(سورة البقرة، آیت: ۲۸۱) ترجمہ: اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ کی پیشی
میں لائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو اس کا کیا ہوا (یعنی اس
کا بدلہ) پورا پورا ملے گا اور ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہوگا۔
***
-------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 4،
جلد: 98 ، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء